Powered by Blogger.

منہ کا کینسر ( Mouth (Oral) Cancer )

Monday 26 August 2013

  


منہ کا کینسر
( Mouth (Oral) Cancer )

ایک جائزہ 

منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ چھالیہ ، پان ، نسوار اور گٹکے کا بے دریغ استعمال ہے ۔پاکستان میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق کینسر کے سب سے زیادہ مریض کراچی میں ہیں ۔ 

منہ کے کینسر کے 55 فیصد واقعات صرف کراچی میں سامنے آئے ہیں ۔ منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ چھالیہ ، پان ، نسوار اور گٹکے کا بے دریغ استعمال ہے ۔ شہریوں میں گٹکا کھانے کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ چھالیہ ، پان اور گٹکے میں جو مٹھاس اور رنگوں کا استعمال ہوتا ہے اس کی وجہ سے فنگس نظر نہیں آتی ۔ اس زہریلی فنگس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں آہستہ آہستہ پان اور گٹکے کی لت بڑھ جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ منہ کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منہ کے خطرناک کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ 

چھالیہ میں پائے جانے والے فنگس سے زہریلے مواد کا اخراج ہوتا ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ ایسے میں ان لوگوں کے ، جنہیں چھالیہ چبانے کی عادت ہوتی ہے ، منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، ماضی کے دور میں منہ کے کینسر کا شکار ہونے والے افراد کی عمر 50 سال سے اوپر ہوا کرتی تھیں ، مگر گٹکے اور چھالیہ کے استعمال سے اب 14 سے 15 سال کے نوجوانوں میں اس کی شرح میں تیزی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ 

پان چھالیہ کے استعمال کے ساتھ گٹکے اور مین پوری جیسی اشیاء بھی عام ہیں ۔ پاکستان کے ہر شہر ، ہر گلی اور ہر محلے میں گٹکا اور پان کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے ہر عمر کے افراد یہاں تک کہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اس کا استعمال کررہی ہیں ، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگوں میں گٹکے اور پان کی عادت پیدا ہوجاتی ہے ۔ گٹکے ، پان اور چھالیہ سمیت میٹھی سپاری کے نام سے رنگین چمکیلی تھیلیوں میں بکنے والی چھالیہ کے متواتر استعمال سے بھی کینسر جیسے موذی مرض پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 150 اقسام کی میٹھی چھالیہ فروخت کی جارہی ہیں ۔ جسے اسکول جانے والے بچے زیادہ شوق سے خدیدتے ہیں ، نوجوانوں اور خواتین میں بھی اس کا استعمال عام ہے ۔ شربت جیسا مزہ رکھنے والی رنگ و کیمیکل سے بھری ان میٹھی سپاریوں کو " میٹھا زہر " کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ 

پاکستان میں منہ کا کینسر دوسرا بڑا کینسر کہلاتا ہے جس سے مرد و خواتین دونوں متاثر ہیں کیونکہ مردوں سمیت خواتین میں بھی گٹکا ، تمباکو ، پان چھالیہ کھانے کا استعمال بہت عام ہے ۔ پوری دنیا میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس مرض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ڈیڈھ سے دو لاکھ افراد منہ کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی کا 4 سے 5 فیصد حصہ اس مہلک مرض میں مبتلا ہے ۔ اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو منہ کے کینسر کا شکار مریضوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کا اندیشہ ہے ۔ 

کینسر کے مرض کی شروعات منہ کے دیگر حصوں میں بن جانے والے زخم ہیں ، جس کے باعث منہ پوری طرح کھلتا نہیں ہے یہ زخم گٹکا ، تمباکو ، پان چھالیہ اور مین پوری کے کھانے سے منہ کے اندرونی حصوں خصوصاً حلق میں بن جاتے ہیں ۔ اگر ان زخموں اور چھالوں کا باقاعدگی سے علاج نہ ہو اور ان چھالیہ کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو یہ کینسر کی صورت اختیار کر جاتا ہے ۔ کینسر زدہ حصے کو آپریشن کی مدد سے منہ کے متاثرہ حصوں سے کاٹ دیا جاتا ہے اگر منہ کا کینسر بڑھ جائے تو مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ منہ کا کینسر کافی خطرناک ہوتا ہے ، اگر وہ صرف دو سینٹی میٹر سے کم ہو تو اسے پہلا اسٹیج کہتے ہیں دوسرے اسٹیج میں اسکا سائز دو اور چار سینٹی میٹر کے درمیان ہوتا ہے ۔ تیسرے اور چوتھے اسٹیج میں یہ سرطان بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے جب ناسور ہڈی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ۔ اس وقت کی سرجری ، تابکار شعاعیں اور کیمو تھراپی زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی زندگی دے سکتی ہے یا اس سے منسلک بدبو سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ 

منہ کا کینسر پاکستان میں بہت عام ہوتا جارہا ہے ، اگر چہ ابھی تک کینسر کی پوری وجہ دریافت نہیں ہوئی لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے کینسر کے تقریباً ننانوے فیصد مریض تمباکو کا استعمال کرتے ہیں ، پان ، چھالیہ اور گٹکا اسی قسم کے کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ 

منہ کا سرطان کیسے لگتا ہے ؟ 

عموماً منہ کے اندر ایک زخم بن جاتا ہے جو کہ درد نہیں کرتا۔ اس کے آس پاس گوشت سخت ہونے لگتا ہے اور انگلی یا زبان سے اس کی سختی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ بعض اوقات زخم نہیں ہوتا لیکن کوئی گلٹی منہ میں نکل آتی ہے جو رفتہ رفتہ سخت ہونے لگتی ہے ۔ 

کینسر عموماً درد نہیں کرتا ، صرف اس وقت درد شروع ہوتا ہے جب کینسر کسی اعصاب کو اپنی گرفت میں لے لے ۔ کینسر جب بڑھنے لگتا ہے تو نگلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ، اسکے نتیجے میں لعاب منہ سے بے اختیار بہنے لگتا ہے ۔ پھر رفتہ رفتہ باتیں کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے تاہم سب سے تکلیف دہ صورتحال یہ ہوتی ہے کہ منہ کے ناسور سے نہایت خراب بدبو نکلتی ہے اور متعدی بیماری میں مبتلا مریض کی طرح کوئی اسکے پاس نہیں بیٹھ سکتا ۔ 

جب کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے تو کمزوری بڑھ جاتی ہے اور اس طرح سے رفتہ رفتہ مریض موت کی جانب بڑھتا ہے ۔ 

سفوف نُصیری 

بکثرت پان، گٹکا وغیرہ کھانے والے کا سب سے پہلے منہ متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال منہ کے نرم گوشت کو سخت کر دیتا ہے جس کے سبب منہ پورا کھولنا اور زبان ہونٹوں کے باہر نکالنا دشوار ہو جاتا ہے، نیز چونے کا مسلسل استعمال منہ کی جلد کو پھاڑ کر چھالا بنا دیتا ہے اور یہی منہ کا السر ہے، ایسے شخص کو چھالیہ، گٹکا، مین پوری اور پان وغیرہ سے فوراً جان چھڑا لینی چاہئے ورنہ یہی السر آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ 

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے"سفوف نُصیری " کے نام سے ہمیں اس مرض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو سینکڑوں مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوراس خطرناک اور جان لیوا مرض سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں۔ 


مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں

     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

بواسیر ( piles )

Saturday 24 August 2013



بواسیر
( piles )

ایک جائزہ

بواسیر کا مرض پاکستان میں عام ہے ۔ جلد توجہ نہ دینے اور ٹوٹکے کرنے سے اکثر ( piles ) مریض مرض کو پیچیدہ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ معاملہ عمل جراحی تک جا پہنچتا ہے ۔ اگر وقت پر علاج معالجہ کیا جائے اور حفاظتی تدابیر و احتیاط کر لی جائے تو مرض پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے ۔ بواسیر کی اقسام :بواسیر کی دو اقسام ہیں ۔بواسیر خونی اور بواسیر بادی ۔پہلی قسم میں خون آتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں خون نہیں آتا ، جبکہ باقی علامات ایک جیسی ہوتی ہے ۔بواسیر کس طرح ہوتی ہے ؟گردش خون کے نظام میں دل اور پھیپھڑوں سے تازہ خون شریانوں کے زریعے جسم کے تمام اعضاء کو ملتا ہے ، اس کے ساتھ آکسیجن فراہم کرتا ہے ۔ پھر ان حصوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ والا خون واپس دل اور پھیپھڑوں تک وریدوں کے ذریعے پہنچتا ہے ۔ مقعد میں خاص قسم کی نہ ہونے کی وجہ سے ان وریدوں میں خون اکٹھا ہو کر سوزش ( valves ) وریدوں میں راستہ پیدا ہو جاتی ہے جو کہ بواسیر کہلاتی ہے ۔ اس طرح یہ مرض ہو جاتا ہے اور مناسب تدابیر نہ کی جائیں تو وریدیں اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ تھوڑی سی رگڑ سے بھی پنکچر ہو کر خون خارج کرنے لگتی ہیں ۔ مقعد کے اوپر والے حصے کے اندر خاس قسم کے خلیوں کی چادر ہوتی ہے ۔ جب کہ مقعد کا نچلے والا حصہ جلد کا ( painless ) ہے جو کہ بہت حساس ہوتا ہے اور اس میں درد محسوس کرنے والے خلیے ہوتے ہیں ۔ مقعد میں بڑی اور چھوٹی وریدوں کے باعث موہکے ( مسے ) بھی ان کی پوزیشن پر ہوتے ہیں ۔ بواسیر کے تین چھوٹے اور تین بڑے موہکے ہوتے ہیں ۔

بواسیر کے اسباب 

عموماً یہ مرض موروثی ہوتا ہے ۔ مستقل قبض کا رہنا بھی اس کا اہم سبب ہوتا ہے ۔ خواتین میں دوران حمل اکثر قبض کا عارضہ ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مقعد کے پٹھوں میں کھچاؤ ، گرم اشیاء مصالحہ جات کا بکثرت استعمال ، خشک میوہ جات کی زیادتی ، غذا میں فائبر ( ریشہ ) کی کمی سے بھی مقعد میں دباؤ بڑھ کر وریدوں میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے ۔ وہ لوگ جو دن بھر بیٹھنے کا کام کرتے ہیں اور قبض کا شکار ہو جاتے ہیں وہ بھی عموماً بواسیر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ 

علامات 

مقعد میں خارش ، رطوبت اور درد کا ہونا ، اجابت کا شدید قبض سے آنا ، رفع حاجت کے دوران یا بعد میں خون کا رسنا ، قبض کی صورت تکلیف کا بڑھ جانا اور مقعد پر گاہے گاہے موہکے کا نمایاں ہونا شامل ہے ۔ موہکے بعض دفعہ باہر نہیں آتے صرف اندر ہوتے ہیں بعض مریضوں میں رفع حاجت کے وقت باہر آجاتے ہیں جس سے درد ، جلن بڑھ جاتی ہے پھر یہ موہکے از خود اندر چلے جاتے ہیں یا اندر کر دئیے جاتے ہیں ۔ بعض لوگوں میں کبھی یہ موہکے باہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی اندر نہیں جاتے اور شدید اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔ 

جلاق پائوڈر

مسلسل بیٹھنے اور مسلسل بادی چیزوں کا بکثرت استعمال، مصالحہ دار تلی ہوئی زیادہ گرم چیزوں کا مسلسل کھانا یا موروثی اثرات بواسیر کا باعث بنتے ہیں۔ انسان علاج کروا کر عاجز آچکا ہوتا ہے۔ ایسے تمام عوامل میں ہمارے شعبہ تحقیق نے اس کیلئے شافی علاج دریافت کیا ہے کہ جس سے بواسیر کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے اور موہکے، تکلیف درد اور جلن کا بالکل ازالہ ہوجائے بلکہ بعض لوگ تو آپریشن کراچکے ہوتے ہیں مرض پھر بھی غالب آجاتا ہے۔ بعض کئی بارآپریشن کروانے کے بعد بھی سکون نہیں پاتے۔ ایسے تمام لوگ ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور بواسیر خونی ہو یا بادی یا ناسور کی شکل اختیار کرچُکا ہو ان سب سے یقینی خاتمہ (انشاء اللہ) پائیں۔

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے" جلاق پائوڈر" کے نام سے ہمیں اس مرض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو کئی ہزار مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوراس اذیت ناک اور پیچیدہ مرض سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں۔


مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں

     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

عرق النساء کا درد ( Sciatica Nerve )



عرق النساء کا درد
( Sciatica Nerve )

ایک جائزہ 

انسانی جسم کا نظام اﷲ تعالیٰ نے دو حصوں پر مرتب کیا ہے جسم کے کچھ حصے تو خود کار ہیں یعنی اپنے تسلسل میں کام کر رہے ہیں اور کچھ حصے انسانی مرضی کے تابع ہوتے ہیں ۔ جب ان کے خود کار نظام میں خلل واقع ہونا شروع ہوتا ہے تو اس کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہو جا تا ہے جو کہ اندرونی بیماری کا اظہار ہوتا ہے ۔ در اصل یہی علامات کسی بھی بیماری کی اندرونی تصویر کا بیرونی عکس ہوتی ہیں ۔درد کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مثلا سر درد ، کمر درد ، گھٹیا کا درد ، ہڈیوں کا درد ، عرق النسا ء کا درد ، ہڈیوں کا درد وغیرہ وغیرہ ۔ یہ معا لج کا کام ہے کہ وہ مریض کی تمام علامات ، حرکات و سکنات اور مشا ہدات کے بعد جسم میں ہونے والے درد کی درجہ بندی کرے اور اسے ایک مخصوص مرض کے زمرے میں رکھے ۔ ہم یہاں جس درد کا ذکر کریں گے وہ شیا ٹیکا ( عرق النساء ) کہلاتا ہے ۔ مو جو دہ دور میں یہ درد بہت عام ہو گیا ہے اور اس میں زیادہ تر خواتین ہی مبتلا ہیں ۔ عرق النساء اس درد کو کہتے ہیں جو کہ پیڑو (Pelvis) کے سِروں سے شروع ہوتا ہے کیو نکہ اسی جگہ ایک بڑا عصب (Nerve ) مو جود ہوتا ہے جس کو Sciatica Nerve کہتے ہیں ۔ یہ درد پیڑو کے سِروں سے شروع ہو کر ٹانگ کے پچھلے حصے سے ہوتا ہوا بیرونی ٹخنے میں محسوس ہوتا ہے ۔ در حقیقت یہ ایک عصبی مرض ہے ۔ 

علامات 

عرق النساء کا درد آہستہ آہستہ شروع ہو کر شدید ہوتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اچانک بھی شروع ہو جاتا ہے ۔اس میں بعض اوقات متاثرہ ٹانگ بھاری ہو جاتی ہے ۔ اور مریض کے لئے اس پر وزن یا بوجھ ڈالنا کافی مشکل ہوجاتا ہے ۔عموماً مریض کو متاثرہ ٹانگ پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت پڑے ، تو وہ پاؤں کے اگلے حصے پر بوجھ ڈال کر ایڑی کو اونچا رکھتا ہے تاکہ شیا ٹیکا نرو پر کسی قسم کا کھنچاؤ نہ پڑے ۔ اس مرض کی صورت میں مریض ٹانگ کو ڈھیلا رکھنا چا ہتا ہے ۔ پاؤں کو گھسیٹ کر چلتا ہے ۔ متاثرہ ٹانگ میں اکثر بل (کڑل ) پڑ جاتے ہیں اور نسیں کھنچ جاتی ہیں ۔ مریض کرسی پر ٹانگ لٹکا کر بیٹھا ہو اور گھٹنے کو دبایا جائے تو مریض کو سخت درد محسوس ہوتا ہے ۔ مریض ٹانگ کو جلدی جلدی اور باآسانی پیٹ کی طرف موڑ یا پھیلا نہیں سکتا کیونکہ کھنچاؤ سے تکلیف ہوتی ہے اور ذرا سی ٹھنڈک بھی مریض کے درد کو بڑ ھا دیتی ہے ۔ 

وجوہ 

عرق النساء کا مرض عموماً قبض کے سبب زیادہ دیر تک پانی میں بھیگنے ، نمدار جگہ بیٹھنے یا سونے ، بہت زیادہ بوجھ ( وزن ) اٹھانے ، شدید جھٹکا لگنے ، ریڑ کی ہڈی مہرے ہل جانے ، اعصابی تناؤ ، پریشانی ، مسلسل ایک ہی کروٹ لیٹنے ، کئی گھنٹوں تک مسلسل بیٹھے رہنے ، غلط قدموں سے چلنے اور ایکسیڈنٹ وغیرہ کے باعث ہوسکتا ہے کیونکہ ان تمام صورتوں میں شیا ٹیکا نرو میں کھنچاؤ پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ مرطوب مقا مات پر رہنے والوں میں بھی یہ مرض عام ہے ۔ 

میاہ حیات 

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے" میاہ حیات" کے نام سے ہمیں ان امراض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو کئی ہزار مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوراس خطرناک اور مفلوج کر دینے والی بیماری سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں ۔ 


مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں

     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

معدے کا السر (Gastric ulcer )

Friday 23 August 2013


معدے کا السر
(Gastric ulcer )

تعارف 
السر کسی عضو یا نسیج میں زخم پڑ جانے کو کہتے ہیں ۔ معدے کے السر سے مراد معدے کا زخم ہے یہ عموماً معدے کی پچھلی دیوار پر ہوتا ہے کبھی کبھار معدے کی اگلی سطح پر بھی السر پیدا ہو جایا کرتا ہے ۔ جوں جوں پرانا ہوتا جاتا ہے ، بڑھتا جاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ بڑھتے بڑھتے بہت گہرا ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھار اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ معدے کی دیوار میں سوراخ ہو جاتا ہے طب میں یہ معدے کے اندر یا چھوٹی آنت کے سر ے پہ ہونے والا زخم السر معدہ کہلاتا ہے ۔ ایلوپیتی میں السر معدے میں ہوں تو ان کو Gastric ulcer اگر چھوٹی آنت میں ہوں تو انہیں Duodenal ulcer اور دونوں کو ملا کر Peptic ulcer کا نام دیا گیا ہے ۔ 
نظام انہضام 
معدے کے السر کی حقیقت کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں افعال المعدہ بھی معلوم ہوں ۔ اور منہ سے لے کر مقعد تک نظام انہضام پر بالترتیب دسترس حاصل ہو ۔ جو خوراک بھی ہم کھاتے ہیں وہ ابتدائی صورت میں اس قابل نہیں ہوتی کہ فوری طور پر جسم کو توانائی بخش دے ۔ 
کھائی جانے والی غذائیں نظام انہضام سے گزرتے ہوئے ہی جسم کا جزو بنتی رہتی ہیں نظام انہضام کے کیمیاوی کارخانے غذائی اجزاء کو توڑ پھوڑ کے بعد اس حالت میں لاتے ہیں کہ وہ جسم میں جذب ہوسکیں ۔ نظام انہضام دراصل ایک طویل نالی پر مشتمل ہے ۔ یہ نالی منہ سے شروع ہو کر مقعد تک پہنچتی ہے ۔ اس نالی سے جسم کے مختلف اعضائے ہضم جیسے معدہ ، آنتیں ، غدود ، اعضائے جگر ، لبلبہ اور طحال وغیرہ منسلک ہوتے ہیں ۔ اس نالی کے مختلف حصے ہیں اور ہر حصے کے اپنے مخصوص افعال ہیں کوئی حصہ غذاؤں کو توڑ پھوڑ رہا ہے ۔ کوئی حصہ انہیں جذب کررہا ہے اور کوئی حصہ فاضل مواد کا اخراج کررہا ہے ۔ 
ہاضمہ کا یہ عمل زیادہ تر انزائیمز کے ذریعے ہوتا ہے ۔ یہ حیاتیاتی مادے کیمیاوی عوامل کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں غذا کو توڑ پھوڑ کر چھوٹی آنت تک پہنچتے اور خون میں شامل کرتے رہتے ہیں اور خون کے ذریعے جسم کے تمام حصوں تک پہنچ جاتے ہیں دوران خون کے دوران خلیات اپنی اپنی غذا جذب کرتے رہتے ہیں ۔ بعض اجزاء خلیات کو توانائی مہیا کرتے ہیں اور بعض نئے ٹشوز بناتے ہیں یا پھر حیاتیاتی مواد مثلاً انزائیمز وغیرہ بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ معدہ کے خاص قسم کے خلیات سے میوکس نامی رطوبت رستی رہتی ہے جو کہ معدہ کو تیزابیت سے بچاتی ہے ۔ عضلاتی پردے میں تیزی سے یہ رطوبت قدرے کم گرتی ہے ۔ جس سے معدہ کا دفاعی نظام بھی کمزور پڑ جاتا ہے ۔ 
خوراک منہ میں چباتے وقت منہ کے غدود سے لعابی میوکس اور انزائمر ( خمیر ) پر مشتمل ہوتا ہے جس سے ایک طرف تو غذا گلے سے نیچے نگلنے کے قابل ہو جاتی ہے اور دوسری طرف لعاب میں پائی جانے والی انزائمر جسے Ptyalin کہتے ہیں خوراک کو توڑتا ہے ۔ اور ہضوم کے مراحل کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ غذا کی نالی جسے ایسوفیکس کہتے ہیں کے ذریعے غذا معدے میں پہنچ جاتی ہے ۔ جہاں عضلاتی پردے اپنے پریشر اور تیزابی رطوبات سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیتا ہے ۔ ہائیڈرو کلورک ایسڈ یہیں پیدا ہوتا ہے ۔ نچلے حصے میں سے ایک ایسی رطوبت اخراج پاتی ہے جو وٹامن بی کے جذب ہونے میں مددگار ہے گیسٹرین بھی انہی نچلے حصے کے خلیات میں بنتی ہے ۔ معدے میں بعض خلیات ایک چِپ چِپا مادہ میوکس پیدا کرتے ہیں جو کہ معدہ کو ہا ئیڈروکلارک ایسڈ کے نقصان سے بچاتا ہے ۔ ایک اور مادہ جو معدہ میں پیدا ہوتا ہے وہ پیپسی نوجین ہے جو تیزاب سے ملکر پیپسن بناتا ہے یہ مادہ خوراک میں موجود پروٹین کو توڑ کر چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیتا ہے معدے کے عضلات خوراک کو پیستے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہاضمے کی رطوبت اس میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ معدہ میں کسی حد تک نشاستہ کو گلوکوس میں تبدیل کرنے کا عمل بھی ہوتا ہے ۔ عام طور پر خوراک پر معدے کے فعل و عمل میں تین گھنٹے تک صرف ہوجاتے ہیں اس کا انحصار خوراک کی نوعیت پر بھی ہے زود ہضم غذائیں یہ سفر جلد طے کر جاتی ہیں اور روغنیات وغیرہ جیسی غذائیں زیادہ دیر لیتی ہیں ۔ معدہ میں غذا جزوی طور ہر ہضم ہوتی ہے اور نیم مائع کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔ معدے میں غذا پس پس کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر مائع کی شکل اختیار کرلیتی ہے غذا کی اس مائع صورت ہی کو طب قدیم میں کیموس کا نام دیا گیا ہے ۔ 
معدے میں غذا کے جذب بدن ہونے کا عمل برائے نام ہوتا ہے ۔ معدے سے خوراک ( ڈیوڈینم ) چھوٹی آنت کے پہلے حصے میں داخل ہوجاتی ہے ۔ ڈیوڈینم ( چھوٹی آنت ) کے ابتدائی دو انچ کے غدود الکلی پیدا کرتے ہیں ۔ یہ الکلی معدے سے آنے والے تیزابوں کو معتدل بنا دیتی ہے ۔ اسی نالی میں خوراک میں سفراء شامل ہوتا ہے جو جگر اور پتہ سے آتا ہے ۔ لبلبہ سے آنے والی رطوبات انسولین وغیرہ بھی یہیں خوراک میں شامل ہوتی ہیں یہ تمام رطوبات معدے کے پچھلی طرف موجود چار انچ کی نالی کے ذریعے پہنچتی ہیں ۔ 
جگر و غدود جسم الوجود یہاں نظام انہضام کے خارکانے ہیں ، جگر کا اہم کام غذا کے ہضوم کی منازل میں صفراء مہیا کرنا ہے ۔ پتہ ناشپاتی کی شکل کی ایک عضلاتی تھیلی ہے جس میں صفراء ذخیرہ ہوتا رہتا ہے نظام ہضم جب صفراء کی ضرورت کا سگنل دیتا ہے تو یہاں سے صفراء شامل غذا ہوجاتا ہے صفراوی مادہ زردی مائل سبز ہوتا ہے ۔ 
لبلبہ جو کہ ایک غدود ہے معدہ کے عقب میں واقع ہوتا ہے ۔ یہ دو مختلف کام سر انجام دیتا ہے ۔
1 ۔ انسولین خارج کرتا ہے اور
2 ۔ ہاضمہ کے انزائمز پیدا کرتا ہے ۔ ان کا کام یہ ہے کہ کاربوہائیڈریٹ ، پروٹین اور چربی کو اسقدر چھوٹے چھوٹے مالیکیولز میں توڑ دے کہ وہ باآسانی جذب ہوسکیں ۔ 
چھوٹی آنت میں چکنائی ، نشاستہ اور پروٹین کے توڑ پھوڑ کا عمل مکمل ہوجاتا ہے اور یہ اجزاء جذب ہوجاتے ہیں ۔ غذا اپنے سفر کے دوران آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہتی ہے اس دوران اس میں شامل ہونے والے انزائمز اور دیگر رطوبت بھی شامل ہوتی رہتی ہیں ۔ 
غذا باریک سے باریک تک پستی چلی جاتی ہے اور بالآخر اس قابل ہوجاتی ہے کہ چھوٹی آنت اسے جذب کرلے ۔ چھوٹی آنت کے خلیات غذائی اجزاء کو جذب کر کے غذائی نظام ہاضمہ سے منسلک خون کی نالیوں تک پہنچا دیتے ہیں پہلے یہ تمام غذائی اجزاء جگر میں جاتے ہیں ، اس کے بعد خون میں شامل ہو کر سارے جسم میں پہنچتے ہیں اس عمل میں تقریباً 4 گھنٹے صرف ہوتے ہیں یہاں سے غذا کا باقی مانندہ حصہ بڑی آنت میں روانہ ہوجاتا ہے ۔ یہ غذا میں موجود پانی اور معدنی نمکیات کو جذب کرتی ہے ۔ بڑی آنت میں ہضم کو تقریباً 4 تا 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں پھر کہیں جا کر غذا جگر کے ذریعے پختہ ہو کر خون میں شریک ہوتی ہے اور خون بنتی ہے ۔ لیکن اصل میں ابھی غذا کے ہضم کا ایک مرحلہ باقی رہ جاتا ہے صحیح معنوں میں غذا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ خون سے جدا ہو کر جسم پر مترشح ہو اور پھر طبیعت اسکو جذب کر کے جزو بدن بنادے ۔ غذا کو خون بننے تک اگر گیارہ گھنٹے لگتے ہیں تو جزو بدن ہونے تک تین چار گھنٹے اور خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اب صرف وہ اشیاء باقی بچ جاتی ہیں جو ہضم ہونے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ فاضل ہوتی ہیں اس لئے بچنے والے مادے کو فضلہ کہا جاتا ہے ۔ یہ ریکٹم یعنی مقعد کے ذریعے خارج ہو جاتا ہے ۔ 
اسباب 
السر اسپرین یا اس نویت کی درد روکنے والی دیگر ادویہ سے بھی ہوسکتا ہے اسی طرح کارٹیزون ، سٹیرائیڈز یا پھر آتھرائٹس جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں دی جانے والی دواؤں سے بھی یہ عارضہ ہوسکتا ہے ۔ چٹپٹی اور گرم مصالہ جات والی اغذیہ بھی بہت سبب ہیں ۔ 
ایلو پیتھی کے مطابق ایک بیکٹیریا کو السر کا سبب قرار دیا گیا ہے ۔ اگر یہ مزمن صورت اختیار کر جائے تو معدہ کی شوزس کا روپ بھی دھار سکتا ہے ۔ معدے کی تیزابی رطوبت جو کہ نظام انہضام میں اہم کردار ادا کرتی ہے جب حد اعتدال سے بڑھ جاتی ہے تو یہی رطوبت خلیات کو کھانا شروع کردیتی ہے جس سے السر پیدا ہوجاتا ہے ۔ 
قانون مفرد اعضاء کے مطابق معدہ کا السر عضلاتی اعصابی تحریک میں ہوتا ہے تیزابی رطوبات وافر مقدار میں تراوش پانے لگتی ہیں تیزابی مادوں کی بہتات خلیات کو کھانا اور گلانا شروع کردیتی ہے جس سے السر پیدا ہوجاتا ہے غدد میں تسکین کی وجہ سے صفراء کی پیدائش کم ہوجاتی ہے اور صفراء ہی تیزابی مادوں کو کنٹرول میں رکھتا ہے ۔ اعصابی تحلیل کی وجہ سے الکلائن رطوبت بھی غیر مؤثر ہونے کی صورت اختیار کر جاتی ہیں اگر اس میں بیکٹیریا کا کوئی عمل دخل ہے بھی تو قوت طبعی جو کہ جگر میں کار فرما ہوتی ہے کمزور پڑجاتی ہے اگر معدہ کے مفرد اعضاء کے افعال کو درست کریا جائے تو شفا یقینی ہوجاتی ہے ۔ معدہ میں خاص قسم کے خلیات سے میوکس نامی رطوبت رستی رہتی ہے جوکہ معدہ کی دیواروں کو تیزابیت سے محفوظ رکھتی ہے عضلاتی پردے میں یہ رطوبت گھٹ جاتی ہے ، جس سے معدہ کا دفاعی نظام بھی کمزور پڑ جاتا ہے ۔ قانون مفرد اعضاء کے اطباء خوب جانتے ہیں کہ عضلاتی تحریک میں عضلات میں سیکٹر واقع ہوجاتا ہے اس سیکٹر میں شدت آنے سے معدے کی دیوار تڑ ( پھٹ ) جاتی ہے اور زخم کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اسی معدے کے سیکٹر کی وجہ سے ہچکی بھی لگ جایا کرتی ہے جو اگر کنٹرول نہ ہو متواتر لگی رہے تو السر کی بہت خطرناک صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔ 
علامات 
ابتدا میں معدے میں جکڑن سی محسوس ہوتی ہے پیٹ کے اوپر پسلیوں کے درمیان درد محسوس ہوتی ہے ۔ پھر رفتہ رفتہ ہلکا سا درد ہونے لگتا ہے معدے کو دبانے سے درد میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات قے آجاتی ہے تو درد ذرا کم ہوجاتا ہے بعض اوقات قے میں خون بھی ملا ہوا ہوتا ہے ۔ معدے کی عروقِ شعریہ کسی بڑی شریان معدہ کے پھٹ جانے سے خونی قے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے ۔ کبھی براز کی راہ خون خارج ہونے کی صورت میں پاخانہ سیاہ رنگ کا آتا ہے ۔ السر جب بگڑنے لگتا ہے تو اس سے خون رسنے لگتا ہے اور بعض اوقات مقام السر پر سوراخ کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ مزمن اور بگڑی صورت میں مریض دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے ۔ 
تشخیص 
جب مریض درد والی جگہ کی پکی نشاندہی کرے کھانا کھانے کے بعد درد کو آرام آئے یا درد میں کمی ہوجائے بھوک کی صورت میں درد شروع ہوجائے اور قے آنے کے بعد آرام محسوس ہو تو یہ تمام علامات معدہ کے السر کا پتہ دیتی ہیں ۔ قارورہ میں سرخی کا اثر غالب ہوگا ۔ چہرے اور جسم پہ ابتدا میں سرخی غالب ہوگی جو مزمن صورتوں میں بتدریج سیاہی مائل ہوتی چلی جائے گی اس تحریک میں اگر یورک ایسڈ بڑھ جائے تو پاؤں پر سوزش کی علامت بھی ظاہر ہونے لگتی ہے ۔ بعض مریضوں کے ہاتھ کی انگلیاں اور پاؤں کی انگلیاں بھی درد کرتی ہیں اور ان پر ہلکی ہلکی سوزش بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں چھوٹے جوڑوں میں درد کی شکایت بھی ہوسکتی ہے ۔ یہ باتیں کتابی نہیں تجربہ شدہ ہیں ۔ جدید سائنس میں گیسٹرو سکوپی سے بھی السر کی تشخیص کی جاتی ہے ۔ جس پر بہت اعتماد کیا جاتا ہے لیکن یہ مریض پر ظلم کے مترادف ہے سچی بات تو یہ ہے ایک تو یہ مریض پر ظلم ہے اور مال بٹورنے کا ایک طریقہ ہے ۔ دوسری طرف بیمار معدہ اسی آلہ سے السر کا شکار ہوسکتا ہے ۔ مریض کے معدے کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے اس کے گلے میں پر لگائیں تو اسے قے ہوجائے گی اس قے کا لیبارٹری معائنہ تشخیص کے لئے مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔ خون کا لیبارٹری معائنہ اور پاخانہ کا لیبارٹری معائنہ بھی اس طرف مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔ قے اور پاخانہ میں پائے جانے والے خونی خلیات پس سیلز اور تیزابیت معدے کی السر کی بہت بڑی پہچان ہے ۔
اصل میں معدے کے وہ غدد جو تیزابی رطوبات پیدا کررہے ہیں ان کے بڑھ جانے سے السر پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایلوپیتھی طریقہ علاج میں الکلائن ادویہ دے کر تیزابیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسا کرنے سے ہاضمے کا سارا نظام ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ادویہ کی متواتر ضرورت رہے گی ۔ جب ان ادویہ کا استعمال بند کردیا جائے گا پھر وہی علامات پیدا ہوجائے گے السر کی صورت دوبارہ نمودار ہوجائے گی ۔ 
یاد رکھیں تیزابی رطوبات کو کیمیاوی طور پر بے اثر کر دینا مسئلہ کا کوئی مستقل حل نہیں ہے ۔ ایسا کرنے سے نظام انہضام بھی بری طرح متاثر ہوگا کیونکہ یہ تیزابی رطوبات نظام ہضم میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس لئے تیزابی رطوبات کو الکلائن ادویہ کے ذریعے ختم اور بے اثر کردینا کوئی علاج نہیں اصولی طور پر غلط ہے ۔ ویسے بھی ہم اگر غور کریں تو معدے کی رطوبت میں ترشی غالب ہوتی ہے معدی رطوبات کو کیلوس کہتے ہیں چھوٹی آنت میں جاکر صفراء کے ملنے سے کیموس کی صورت پیدا ہو جاتی ہے گویا سودا کی تعدیل صفراء سے ہوتی ہے اور یہی فطری طریقہ علاج ہے ۔ 
ماہیت مرض کے مطابق عضلات میں تحریک سے سوداوی اور تیزابی رطوبات کی تراوش بڑھ جاتی ہے جسکی وجہ سے یہ وافر تیزابی رطوبات السر پیدا کردیتی ہیں اصولی علاج یہ ہے کہ غدد میں تحریک پیدا کردی جائے جس سے تیزابی اور سوداوی رطوبت کی تراوش اعتدال پر آجائے گی السر خود بخود رفع ہوجائے گا ۔
میاہ حیات
صحت مند معدہ ہر چیز کو جذوبدن بنانے کی سکت رکھتا ہے مگر افسوس کہ مسلسل روغنی اشیاء، چٹ پٹی، مرچ مصالحہ والی میز، برگر، کیوبز، ملی ہوئی چیزیں، بازاری کھانے، ٹماٹو کیچپ کے استعمال نے معدہ کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔اس طرح مریض معدہ کی کئی بیماریوں کا مجموعہ بن گیا ہے مثلاً تیزابیت، معدہ کا السر، معدہ میں زخم، پیٹ میں درد، آنتوں میں سوزش، معدہ کی جلن، ریاح کا درد، کھٹی ڈکاریں، منہ کا ذائقہ بدمزہ، غذا کی نالی میں جلن، جگر اور ناف کے گرد درد، پاخانے کی بار بار حاجت، یہ تمام امراض جنم لیتے ہیں۔ ان امراض کیلئے "میاہ حیات" ایسی بہترین دوا ہے جو معدہ کا زخم، معدہ میں سوزش، معدہ کا درد، پاخانہ سے خون آتا ہو، تھوڑی سی مرچ مصالحہ والی چیز کھانے سے جلن ہوتی ہو یہاں تک کہ اپنڈی سائٹس میں بھی مفید ہے۔"میاہ حیات" ایسی زود اثر دوا ہے جو معدے کے زخم کی خاص دوا ہے یہ نہ صرف تیزابیت کو معمول پر لاتی ہے بلکہ معدہ کے کینسر کو ختم کرتی ہے اس دوا میں قیمتی قدرتی جڑی بوٹیاں جو سوزش اور زخم بھرنے میں مدد دیتے ہیں۔ معدہ اور آنتوں کی کمزوری دور کرکے پیٹ اور آنتوں میں خون کی فراہمی بحال کردیتے ہیں۔ معدہ کے السر سے جگر بھی متاثر ہوتا ہے۔ خون کی پیدائش کیلئے معذرت کرتا ہے اور اپنی سستی ظاہر کرتا ہے "میاہ حیات" جگر کو بھی تندرست اور وافر مقدار میں خون پیدا کرنے والا بنادیتا ہے۔"میاہ حیات" بلڈپریشر کو بھی کنٹرول کرتا ہے اس کے استعمال سے بلڈپریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔"میاہ حیات" طب اسلامی کے پاکیزہ اصولوں کے مطابق بہترین مؤثر ادویات سے تیار کیا گیا ہے۔ جسم انسانی پر کوئی مضراثرات نہیں ڈالتا۔ اس کے مؤثر اجزاء جسم میں قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں ہر قسم کے ورمو کی بہترین دوا ہے اس کے استعمال سے جگر اور معدہ صحت مند ہوجاتے ہیں اور صحیح طریقے سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں دوران خون اعتدال میں رہتا ہے اور مریض صحت مند ہشاش بشاش رہتا ہے۔بھوک چمکانے، غذا کو ہضم کرنے اور پھر اسے جزو بدن بنانے کیلئے عجیب وغریب اثرات کا حامل دوا "میاہ حیات" معدے کے تمام امراض مثلاً سینے کی جلن، گیس، تبخیر، بدہضمی، ترش ڈکاریں، اپھارہ پن، قے، متلی، معدے کی تیزابیت، معدے کی کمزوری، معدے کے السر، معدے کا ورم، معدے کا بوجھل ہوجانا، معدے پر بوجھ، خون میں کمی، پیٹ کا پھولنا اور معدے کی خرابی سے پیدا ہونیوالے جملہ امراض سے نجات کیلئے ایسا کرشمائی دوا ہے کہ جس کی ہمہ وقت موجودگی آپکو بے شمار ادویات سے بے نیاز کردیگی۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھیں۔ وہ لوگ جو معدہ کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نہ تو اپنی پسند کی خوراک کھا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی خوراک ان کے جسم کو لگتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اوّل تو بھوک ہی کم لگتی ہے اگر زبردستی کچھ کھا بھی لیں تو کھانے کے بعد پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے۔ کٹھی ڈکاریں آتی ہیں۔ سینے پر بوجھ یا پسلیوں کے درمیان جلن محسوس ہوتی ہے۔ متلی کی وجہ سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ پیٹ میں ہلکا ہلکا درد ہر وقت انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔ کبھی قبض اور کبھی لوز موشن آتے ہیں۔ منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے حتیٰ کہ کھانے سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ تمام علامات اس بات کی خبر دے رہی ہیں کہ معدہ کے افعال درست نہیں اور خرابی معدہ ہونے کی وجہ سے دوسری بیماریاں بھی حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت میں کھاری بوتل اور کسی دوسری چیز کا سہارا لینا قطعی فائدہ مند نہ ہو گا بلکہ ان تمام عوارضات میں"میاہ حیات" کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ طب یونانی میں یہ ایک ایسی تیر بہدف تحفہ ہے جو معدہ کو مکمل تندرست اور توانا رکھتا ہے۔"میاہ حیات" نظام ہضم کوغضب کی تقویت دیتا ہے اور مریض جو بھی غذا کھاتا ہے وہ ضائع ہونے کی بجائے پوری طرح ہضم ہو کر قوت و توانائی کا سبب بنتی ہے۔"میاہ حیات" اپھارہ پن اور سینے کی جلن کو دور کرکے طبیعت کو سکون وآرام پہنچاتا ہے۔آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں ، سفر میں ہوں یا کسی پکنک پوائنٹ پر، ہوٹل میں ہوں یا شادی کی تقریب میں،ان جگہوں پر ہونے والی بدپرہیزی سے آپ کو صرف "میاہ حیات" ہی محفوظ رکھ سکتا ہے۔
نوٹ :اس دوا کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں۔ ہر گھر ، ہر فرد، چھوٹے بڑے، خواتین ، مرد سب کیلئے یکساں مفید ہے۔


مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں


     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

لقوہ یا فالج ( Hemiplegia )




لقوہ یا فالج
 ( Hemiplegia ) 

ایک جائزہ 

لقوہ یا فالج کی جتنی عام حالت ہے ہمارے سماج میں اس سلسلے میں اسی قدر تجاہل بھی پایا جاتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے ’ ہوا میں آگیا ‘ کوئی کہتا ہے سردی لگ گئی ‘ کسی کا گمان ہے مریض کے اوپر سے سانپ گزر گیا ، اردھنگ ہوگیا ہے ، اور نہ جانے کیا کیا ! . . . پھر اس کا علاج مالش اور کبھی کبھار جنگلی کبو تر کے خون سے مالش وغیرہ سے کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ۔ لقوہ یا فالج اصل میں پہلے سے موجود چند امراض کی پیچیدگی کی شکل ہے ۔ اس میں جسم کا دایاں یا بایاں کوئی بھی نصف حصہ بے قوت ہو جاتا ہے اور اسی لئے متاثرہ جانب کے پٹھے ( عضلات ) اپنا فعل انجام نہیں دے سکتے ۔ ان میں قوت باقی نہیں رہ جاتی ۔ مالش وغیرہ کا معاملہ اصل میں قدیم طبی تدابیر میں نظر آتا ہے ۔ چونکہ قدیم دور میں تحقیقی وسائل نہیں تھے اس لئے دماغ کے متعلق زیادہ تفصیلی معلومات نہیں تھیں ۔ اس وقت یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ یہ مقامی طور پر بدن کے عضلات کا ڈھیلا پن ہے ، ان کے خون کی سپلائی متاثر ہوئی ہے اس لئے دَلک ( مالش ) کے ذریعہ رگوں کو کھو لا جائے ۔ اسٹروک کے عارضہ کو بھی اُن کتابوں میں استر خائے عضلات ( پٹھوں کا ڈھیلا ہو جانا ) لکھا گیا ہے ۔ جدید تحقیقات ( جن میں سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کا بڑا رول ہے ) نے اسٹروک کی اصل کیفیت کو اظہر من الشمس کر دیا ہے ۔ اس سلسلے میں اب قیاسات کے لئے جگہ نہیں رہ گئی ہے ۔ لقوہ کے تعلق سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ اس میں ہاتھ پیروں کے عضلات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے نہ نیچے کے اعصاب ہی متاثر ہوتے ہیں ۔بلکہ سارا معاملہ دماغ کے اندر پیش آتا ہے ۔ 
تعارف 

طبی زبان میں لقوہ کو اسٹروک یا سیر یبرو ویسکو لر ایکسیدنٹ ( CVA ) اور ہیمی پلی جیا ( Hemiplegia ) بھی کہتے ہیں ۔ جدید دور میں ایک نئی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے یعنی ’’ برین اٹیک ‘‘ Brain Attack ( جیسے ہارٹ اٹیک ، کیونکہ دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے ) اس کی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دماغ کے بڑے حصوں کو خون کی سپلائی کرنے والی شریان ( رگ / Artery ) کو مڈل سیریبرل آرٹری ( MCA ) کہتے ہیں ۔ اس کے اچانک مسدود ہو جانے یا پھٹ جانے کی وجہ سے دماغ کا متعلقہ حصہ خون کی سپلائی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کا تغذیہ متاثر ہو جاتا ہے ۔ اسی سبب وہ حصہ مردہ ہو جاتا ہے اور وہاں موجود تمام مراکز افعال بدن بھی تباہ اور ختم ہو جاتے ہیں ۔ پھر جسم کے افعال پر سے دماغ کا کنٹرول اٹھ جاتا ہے یہی سبب ہے کہ ایک جانب جسم مفلوج ہو جاتا ہے ۔ دماغ کی دائیں جانب کی شریان MCA اگر پھٹ جائے یا مسدود ہو جائے تو بائیں جانب کا جسم مفلوج ہوتا ہے اور اگر بائیں جانب کی شریان متاثر ہو تو دائیں جانب کا جسم مفلوج ہوتا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دماغ سے نکلنے والی نسیں اور ریشے دماغ کے نچلے حصے میں ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوئے سائیڈ تبدیل کرلیتے ہیں ۔ دائیں حصے والے ریشے با ئیں جانب جاتے ہیں اور بائیں جانب والے دائیں جانب کو ۔ البتہ چہرے پر اسی جانب اثر ہوتا ہے جس جانب کی شریان متاثر ہوتی ہے کیونکہ چہرے پر آنے والے عصبی ریشے قطع سے پہلے ہی نکلتے ہیں ۔ اسٹروک ایک طبی ایمرجنسی ہے ۔ اگر مریض کی فوری اور بروقت طبی امداد نہ کی جائے تو اس کے ساتھ عصبی تکالیف تا حیات لگی رہ جاتی ہیں ۔ کبھی کبھار شدید حملہ میں مریض فوت بھی ہوجاتا ہے ۔ مردوں میں عورتوں کی نسبت فالج تین گنا زیادہ ملتا ہے اور عموماً پچاس برس سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے ۔ عام طور پر ستّر اور اسّی سال کی عمر والوں میں زیادہ دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ طویل عمر ، ذیابطیس ، سگریٹ نوشی ، ہائی کولیسٹرول ، آدھے سر کا درد ( شقیقہ / مائیگرین ) Migraine ، اور رگوں میں خون کا جم جانا بھی لقوہ کا باعث بن سکتا ہے ۔ 
علامات 

فالج کی علامات بہت تیزی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں یعنی محض چند سیکنڈوں یا منٹوں میں ۔ علامات کا پھیلاؤ اور شدت اس بات پر منحصر ہے کہ شریان کا کتنا اور کون سا حصہ ؛ پھر وہ بھی کس درجہ میں متاثر ہے ۔ اسی لئے ہر مریض میں علامات کم یا بیش ہو سکتی ہیں ۔ لقوہ اپنی وجوہات کی بنا پر دو قسم کا ہوتا ہے ۔ اوّل یہ کہ دماغ کی شریان میں کسی وجہ سے سدّہ ( رکاوٹ ) Obstruction پیدا ہو جائے جیسے خون کا چھوٹا سا لوتھڑا ( Thrombus ) جم جائے یا ایسا ہی منجمد خون Clot یا ہوا کا بُلبلہ یا چربی کا ٹکڑا یا کینسر کے خلیات وغیرہ خون کے ساتھ گردش میں آجائیں یا پھر خون میں کسی وجہ سے آکسیجن کی مقدارِ شمولیت کم ہوتی ہو ، تو فالج واقع ہوتا ہے ؛ اور دوم یہ کہ دماغ کی شریان کسی سبب پھٹ جائے اور خون اس سے باہر آئے اور راستہ مسدود کردے ۔ انہی اسباب کے پیش نظر لقوہ کے مریضوں میں وقت اور نشانیان مختلف ملتی ہیں ۔ لیکن عموماً ایک جانب کے عضلاتِ بدن بلکل ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور ان میں قوت نہیں ملتی ، مریض کو جھنجھنا ہٹ کا احساس رہتا ہے ۔ دماغ سے نکلنے والے اعصاب کے افعال بھی متاثر ہو تے ہیں جن کی وجہ سے سونگھنے ، سماعت ، ذائقہ اور دیکھنے میں مریض کو تکلیف ہونے لگتی ہے ، آنکھیں کھولنے اور بات کرنے یا نگلنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے ، ایک جانب چہرے کے عضلات لٹک جاتے ہیں ، مریض اپنے طور پر روزانہ کے معمولات انجام نہیں دے سکتا اور خود سے کھڑا نہیں ہوسکتا ، گردن نہیں گما سکتا ، اسی قسم کی کئی اور اعصابی علامات پائی جاتی ہیں اور اکثر یہ بھی ہو تا ہے کہ مریض بے ہو ش و حواس ہو جاتا ہے ۔ 

میاہ حیات

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے" میاہ حیات" کے نام سے ہمیں ان امراض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو کئی ہزار مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوراس خطرناک اور مفلوج کر دینے والی بیماری سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں ۔



مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں

     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

MIYA HAYAT

Sunday 18 August 2013


میاہ حیات

مرگی ، لقوہ ، عرق النساء ، دمہ ، معدے کا السر ، سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے دماغ کی رگوں میں خون کا جم جانا ، جوڑ پٹھوں کا درد ، پیروں میں سوجن اور جسمانی تھکن کے لئے میاہ حیات ایک بہترین اور آزمودہ دوا ہے ۔ میاہ حیات کے استعمال سے ( انشااﷲ ) آپ کا مکمل اور کامیاب علاج ہوگا ۔

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے" میاہ حیات" کے نام سے ہمیں ان امراض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو کئی ہزار مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوران خطرناک اور جان لیوا امراض سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں۔


مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں

     مرگی              لقوہ               معدے کا السر               عرق النساء     

مرگی ( Epilepsy )

Wednesday 14 August 2013




مرگی
( Epilepsy )

ایک جائزہ 

مرگی کسی چوٹ ، ٹیومر ، زخم یا دماغ میں خون کی رگوں کے آپس میں الجھنے سے ہوسکتی ہے اگر چہ مرگی کی کوئی بظاہر وجہ نظر نہیں آتی ۔ ایم آر آئی اور سی ٹی سکین میں دماغی رپورٹ بلکل درست نظر آتی ہے ۔مرگی کی بیماری عموماً بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔مرگی کے دوران مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے مریض کی گردن پیچھے کی جانب کھینچ جاتی ہے اور مریض کا سر ایک جانب کو مڑ جاتا ہے تشنج کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے سانس رکنے اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے چہرہ نیلگوں یا سیاہی مائل بھی ہوسکتا ہے مرگی کا طبی نام صرع ہے یہ بیماری اعصابی راستوں اور دماغی خانوں میں ناقص اور زہریلے مادوں (سدوں ) کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ناقص مادے دماغ میں پیدا ہوں تو صرع دماغی ، اگر معدہ میں پیدا ہوں تو صرع معدی اور اگر اعصابی طور پر پیدا ہوں تو صرع اعصابی کہلاتا ہے ۔ یہ مرض بلغمی مادہ سے اکثر اور صفراوی مادے سے کبھی کبھار لاحق ہوتا ہے ۔

مرگی کے اسباب 

مرگی کے مقا می اسباب میں دوران حمل سر پر چوٹ لگنا ، ہائی بلڈ پریشر کا ہونا ، شراب نوشی ، خوف و دہشت ، گوشت کا زیادہ استعمال ، عورتوں میں امراض رحم وغیرہ اہم ہیں ۔جدید طب میں مرگی کے درج ذیل اسباب ہیں ۔ پیدائشی طور ذ ہنی نقص کا ہونا ، دماغی جریان خون ، جزوی فالج ، دماغی جھلیوں کا ورم ، زہریلی ادویات مثلا کو کین ، کیفین ، الکوہل اور سیسہ کے مرکبات کا استعمال ، دماغ کو مناسب طور پر آ کسیجن کا بہم نہ پہنچنا ۔

مرگی دیگر امراض کی طرح قابل علاج مرض ہے 

مرگی بھی دوسر ے امراض کی طرح ایک قابل علاج مرض ہے۔ لوگوں میں عام طور پر یہ تاثر پا یا جاتا ہے کہ یہ یا تو ہسٹیریاHysteriaہے یا کسی اوپری ( جنات ،آسیب) اثر کی وجہ سے ہوتا ہے اور ا س کا طب میں کوئی علاج نہیں۔ اس لیے لوگ مستند معالج سے مشورہ کے بجائے جعلی عاملوں اور فقیروں کا رخ کر تے ہیں اور اس وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوجا تا ہے۔

مرگی کے دورہ کے دوران احتیاطیں 

درج ذیل احتیاطی تدابیرکو مدنظر رکھ کر مرگی کے مریض کو شدید ذہنی اور جسمانی چوٹوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ مثلاً دورہ کے دوران مریض کے لواحقین بے جا چیخ و پکار سے پرہیز کریں کیونکہ مریض گھبرا کر اپنے آپ کو زخمی بھی کرسکتا ہے۔ دورہ کے دوران مریض کو کروٹ کے بل لٹائیں تاکہ اس کی زبان دانتوں میں آکر زخمی یا کٹ نہ جائے۔ اس مقصد کیلئے مریض کے منہ میں کپڑا رکھ دیں۔ مریض کے قمیض کے بٹن کھول دیں۔ دورہ کے دوران مریض کے پاوں اور ٹانگوں کے نیچے نرم کپڑا رکھ دیں تاکہ مریض زخمی نہ ہوسکے۔

میاہ حیات 

سالہا سال کی انتھک محنت کے بعدہمارے شعبہ ریسرچ تحقیق نے" میاہ حیات" کے نام سے ہمیں اس مرض کیلئے ایک بہترین اور شافی علاج مہیا کیا ہے ہم نے اس کو کئی ہزار مریضوں پر آزمایا،آزمائش کے بعد جب اس کے نتائج سامنے آئے تو حیرت انگیز طور پر نتائج مثبت،سوفیصد تسلی بخش اور صحت بخش ملے۔ آپ بھی آزمائیں اوراس خطرناک اور جان لیوا مرض سے ہمیشہ کیلئے نجات پائیں۔



مرض اور بیماریوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے


نیچے کِلک کریں


     مرگی              لقوہ              معدے کا السر              عرق النساء     

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Copyright © 2011. GQ Herbal Medicine Store - All Rights Reserved
Template Created by Creating Website Inspired by Sportapolis Shape5.com
Proudly powered by Blogger